بچے سمجھدار ہوتے ہیں یا بڑے

 عموماً سمجھا یہ جاتا ہے کہ بچے بڑوں کے مقابلے میں کم سمجھدار ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ دن پہلے کے تجربے کے بعد میں اس تاثر کو رد کرنے لگا ہوں۔ 

ہوا یوں کہ میں اپنی چھوٹی بچی کو پڑھا رہا تھا۔ جب میں نے ایک باب پڑھانا شروع کیا تو اس نے کہا کہ یہ باب نہیں پڑھنا۔ میں نے پوچھا کیوں؟ کہنے لگی یہ ابھی اس ٹرم کے کورس میں شامل نہیں۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں پھر بھی پڑھ لیتے ہیں۔ کہنے لگی جب اس میں سے کوئی سوال نہیں پوچھا جانا تو پھر اس پر وقت ضائع کرنے سے بہتر نہیں کہ ہم اس سبق کی تیاری کرلیں جو امتحان میں پوچھا جانا ہے۔ 

اب یہ بظاہر ایک معمولی سی بات تھی لیکن اس بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا۔ کیا ہم بڑے اپنے امتحان کیلئے مناسب تیاری کر رہے ہیں یا وہ سبق یاد کر رہے ہیں جن کا امتحان میں سوال ہی نہیں پوچھا جانا۔ روایات کے مطابق تین موٹے موٹے سوال پوچھے جانے ہیں؛

تیرا رب کون ہے؟

تیرا دین کونسا ہے؟

تیرا نبی کون ہے؟ 

اسکے علاؤہ حقوق الله کی بات ہوگی اور انسانوں کے حوالے جو سوالات ہوں گے وہ کچھ یوں ہوں گے کہ فلاں کا حق کیوں کھایا، فلاں کی مدد کیوں نہیں کی جب ہم نے تمہارے پاس بھیجا، فلاں بھوکے کو کھانا کیوں نہیں کھلایا۔ 

جبکہ دوسری طرف ہم جس چیز کی تیاری کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ تیرا مسلک کیا ہے؟ فقہہ کونسا ہے؟ فرقہ کونسا ہے؟ عقیدہ کیا ہے؟ 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کو مکلف کیا گیا ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے فقہوں، عقیدوں اور مسلکوں کا آڈٹ کرے؟ اس بارے میں تو سیدھا سا حکم ہے کہ اچھے کام کی ترغیب کرو اور اس میں مددگار بنو اور برائی سے روکو اور مددگار ہرگز نہ بنو۔ اور پھر اس ترغیب کیلئے طریقہ بھی بتایا گیا کہ لوگوں سے خوش اسلوبی سے بات کرو، لوگوں کیساتھ نرمی سے پیش آؤ اور اہل زمیں پر رحم کرو۔ تو پھر ہم وہ سبق کیوں یاد کر رہے ہیں جسکے بارے میں امتحان میں پوچھا ہی نہیں جانا۔ شاید ہمیں ازسر نو اپنی ترجیحات کا تعین کرنا پڑے گا اور جلد کرنا پڑے گا کیونکہ زندگی برف کا ٹکڑا ہے جو لمحہ لمحہ پگھل رہا ہے۔ 

اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ 

ڈاکٹر اعجاز محسود

Comments

Popular posts from this blog

ضرورت برائے مولوی

دے_قطروول_زیائی

فیسبکزم