زلزلے اور من گھڑت کہانیاں
کچھ 30 سال پہلے جنوبی وزیرستان کے اکثر اور ملحقہ علاقہ مکین میں زلزلے کے یکے بعد دیگرے شدید بلکہ قیامت خیز جھٹکے محسوس کئےگئے۔رات دو بجے تھے اندھیرہ تھا ہر طرف خوف کا سماں تھا ، میں خودآنکھوں دیکھا حال تھا کبھی ایک (خاماٹہ پہاڑ ) سے دھاڑ ( خوف) کی آواز، تو کبھی پیرغر سے زلزلے کی آواز ، پھر زلزلے کے شدید جھٹکے، یوں ہی زمیں ہل رہی تھی خود کو زمین پر کھڑے نہیں رکھ سکتے، بہر حال ایک قیامت تھی، قیامت گزر گئی، ہر کوئی پہلے سے سچا مسلمان بن گیا۔ذکر ازکار میں رات گزاری اور یوں ہی صبح کی آذان ہوگئی۔ کوئی گھراندر جانے کی ھمت نہیں کرسکتا تھا۔ صبح ہوتے ہی پڑوسی حضرات جس میں خواتین بھی شامل تھیں عجیب و غریب خوف وحراس کی داستانیں سناتے رہے۔ تاہم دن یوں ہی خوف میں گزار کر شام ہوگئی۔ کہانیاں بڑی عجیب سی تھیں جن کی تفصیل ملاحظہ ہورہی ہے۔
ایک پڑوسی کے منہ سے سفید جھوٹ سنا کہ شہزادہ وزیرستان( جو اس وقت ایک بزرگ مانا جاتاتھا بلکہ آج بھی اکثر لوگ مانتے ہیں) نے خبر دی ہے کہ رات 2 بجے یعنی زلزلے کی 24 گھنٹے بعد دوبارہ زلزلہ ہوگا، اس اثناء میں ایک اور منگھڑت خبر آئی کی ملحقہ علاقے شوال میں دو پہاڑ ایک دوسرے کے اندر گھس گئے ہیں جس سے لاوا پٹ رہاہے تاہم رات 12 بجے زلزلہ آنے کی خبر آئی، اس قیامت میں دو گھنٹے کا واضح فرق آیا، رات تاریک ہورہی تھی، خوف وحراس حاوی ہورہا تھا، ہم چھوٹے تھے بلکہ یوں سمجھے کہ کنوارے تھے، اور ہاں لاشعور ضرور تھے کسی کی بات پر یقین کرتے تھے، پڑوسن خواتین سے بھی بڑھ چڑھ کر ( من گھڑت) کہانیاں سننے کو ملی، کہ فلاں بھائی نے فلاں بہن سے شادی کی ہے اس وجہ سے زلزلے آتے ہیں ، بہرحال رات کے دس بج رہے تھے خوف طاری ہورہاتھا کیونکہ خبر شہزادہ وزیرستان سے موصول ہوئی تھی، گھڑی کی سوئی پر ہر ایک کی نظر جماں تھی، گھڑی کے صحیح وقت پر آہستہ آہستہ اعتبار ختم ہورہاتھا، آسمان سے بھی کہیں نہ کہیں روشنی (جس سے شیطان کو ماراجاتا ہے) پر نظر لگ رہی تھی، ہر گھڑی قیامت ہی قیامت تھی، کسی نے آسمان میں سفید لکیروں کی کہانی سنائی کہ یہ کسی پیغمبرکے زمانے میں زلزلے (طوفان) سے آسمان ٹوٹ گئی تھی کی بنی ہوئی لکیریں ہیں، خوف بڑھتا جارہاتھا، گھڑی کی سوئی گھومتی جارہی تھی، وقت کٹھتا جا رہا تھا، اسی اثناء میں وزیرستان سے ملحق علاقہ خوست برام شاہ سے کسی دھماکے کی آواز بھی سننے کو ملی، اوف سانس گھٹتی جارہی تھی، تیز ہوا کی لہر شروع ہوگئی، فضاء سے شوں شوں کی شور آرہی تھی، ایک قیامت تو اسی انتظار میں گزری کہ قیامت آنے والی ہے۔۔رات 12 بجنے میں دس پندرہ منٹ رہ رہے تھے ، کانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے،ٹھٹرتی سردی تھی، بستر وغیرہ کیلئےگھر جانے کی ھمت نہیں کرسکتےتھے، اسی کشمکش میں آنکھیں چلی گئی اور گہری نیند سو گیا کسی نے بھی مجھے جگانے کی کوشش نہیں کی۔ صبح جب آنکھیں کھلی۔ سنا کہ یہ سب افواہیں ،جھوٹ، منگھڑت کہانیاں اور بڑھ چڑھ کر بیانات تھے۔
لہذا ان جیسی افواہوں کو نظر انداز کریں، ایک اللہ پر یقین رکھیں، منگھڑت کہانیاں سنانے سے گریز کریں۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ شکریہ
تحریر: ڈاکٹر اعجاز محسود
Comments
Post a Comment