سر_بکف
ڈسکہ میں مجسمے کی توڑ پھوڑ بچی کا سر،اور استاد کا ہاتھ کسی نے کاٹا جو ڈگری کالج کے سامنے تعلیمی شعور اجاگر کرنے کیلئے تعمیر کیا تھا,البتہ یہ کام نامعلوم شرپسندوں نے کیا ہے مگر اس سوچ کو ہوا معلوم لوگوں نے دیا ہے, ایسے مجسمے کیلئے اس معاشرے میں کوئی کیوں قبول کرے, جس کو دن رات سربکف سر بلند,سر تن سے جدا کی ترویج کیا جاتا ہے,خیبر پختونخواہ میں اپکو اکثر سڑک کنارے ایسے مجسمے نظر ائے گے کہ اس میں بندوق کیساتھ مختلف خانز, سردارز وغیرہ کو فخریہ نصب کئے ہوں.بندوق اور قلم کی تبلیغ ایک ساتھ مشکل کام ہے,
اب اگر کوئی بڑی ہستی یا کسی بھی کا مجسمہ وزیرستان میں تعمیر کرے تو نامعلوم نہیں بلکہ لوگ اسے سرعام توڑ کر ثواب کے پرچیاں ایک دوسرے کو بھانٹے گے کہ مبارک ہو ہم نے بت کو جہنم پہنچایا.
پاکستان مختلف اقوام, مختلف ثقافت, مختلف تہذیب, مختلف زبان وغیرہ کا ملک ہے البتہ اپکو ہر صوبے ایک ہی چیز ان میں کمن ملے گا نوٹ پر قائد اعظم تصویر اور قومی پرچم باقی سکین کلر سے لیکر لباس کھانے پینے رہن صحن ,فرقے, عبادات و ایمانیات میں فرق موجود ہیں. اپنی ہی پالیسی کی وجہ سے ہمیں مذید نقصان پہنچنا مقدر میں نہیں ہم نے خود اسکو لکھا ہے. ہم دعاگوں ہیں کہ مزید یہاں پر یکساں سہولیات و حقوق ہر کسی کو ملے.یہ طبقاتی تقسیم, یہ فرقہ واریت, یہ ایکسٹریمزم غریب ہی کو غرق کرے گا. ڈسکہ مجسمے کے تصاویر کمنٹ سیکشن میں دیکھئے.
تحری: ڈاکٹر اعجاز محسود
Comments
Post a Comment