Posts

Showing posts from February, 2021

ضرورت برائے مولوی

 #ضرورت_برائے_مولوی   عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اکثر مولوی حضرات مزاج کے خشک اور ترش رو ہوتے ہیں اور ہنسی مذاق سے انکادورتک کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ حقیقت ان کے برعکس ہے۔ تاہم لوگوں کے سامنے وہ بہت سنجیدہ ہونے کا مظاہرہ کرتے ہیں اور شاید یہ اس مقام کا تقاضا بھی ہے اور اگر آپ ان کےقریبی حلقے میں شامل ہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ داڑھی پگڑی والے لوگوں کے ہنسی مزاح کا معیار بہت بلند ہوتاہے۔ میں چونکہ غیر اعلانیہ مولوی ہوں اسلئے بہت سے مولوی میرےقریبی دوست ہیں۔ یونہی ایک مولوی دوست کے ساتھ جارہا تھا کہ راستے میں ایک حاجی صاحب نے آواز دیا۔ قریب آکر حاجی صاحب نے مولوی صاحب سے درخواست کی کہ حضرت ہمارے پیش امام کی سرکاری نوکری لگ گئی ہے اور اب انکے لئے ممکن نہیں کہ وہ امامت کرسکے تو ہمیں مسجد کےلئے امام چاہئے۔ مولوی صاحب نے کہا ٹھیک ہے میں بندوبست کرتا ہوں فکر نہ کریں۔ حاجی صاحب فرمانے لگے کہ آج کل اکثر لوگوں کے عقائد خراب ہیں تو کوشش کریں کہ صحیح العقیدہ ہو. مولوی صاحب نے کہا کہ ایسا ہی ہوگا انشاء اللہ۔ پھر کہنے لگا کہ کوشش کرے مستند عالم دین اور مدرسے کا سندیافتہ ہو۔ مولوی نے ...

جشن آزادی اور فرض نماز

جشن آزادی کی دوڑ دھوپ آن پر تھی۔ ہر طرف میوزک، سانگز، گانے، ساندرے، بادلے کی آوازیں گن گنا کرمجھے ڈیرہ اسماعیل خان میں مختلف مقامات پر موجود مسجدوں میں نماز پڑھنے کا غیر یقینی موقع ملا بلکہ نماز پڑھنے کی فرصت ملی۔ لیکن ایسی نمازیں زندگی میں پہلی بار پڑھی ہیں جو کہ مسجد میں خوب سریلے آواز میں مختلف گانوں کی آوازیں آرہی تھی۔ بہر کیف ٹوٹی پھوٹی نمازیں تو  پڑھ لیں. جشن آزادی کی اس شور و غل میں انتہائی مصروفیت کی بنا پر ہر فرد کی ایک دن میں تین تین نمازیں قضا ہوگئی جوقیامت کے دن سخت سزا کا باعث بن سکتی ہیں۔۔ لہذا پوری قوم سے عرض ہے کہ ایسے موقعوں پر نماز کا اور اوقات نماز کا خاص خیال رکھیں تا کہ یہی نمازہماری ذلالت کا باعث نہ بنے۔۔۔ اللہ ھم سب کا حامی و ناصر ہو آمین ڈاکٹر اعجاز محسود

دوسری دفعہ کا ذکر ہے۔۔ پیاسہ کوا

 دوسری دفعہ کا ذکر ہے پیاسا کوا  ایک پیاسے کوے کو ایک جگہ پانی کا مٹکا نظر آیا۔ بہت خوش ہوا لیکن یہ دیکھ کر مایوس ہوا کہ پانی نیچے مٹکے کی تہہ میں تھوڑا سا ہے۔ سوال یہ تھا کہ پانی کو کیسے اوپر لائے، اپنی چونچ تر کردے۔  اتفاق سے اس نے حکایات لقمان حکیم پڑھ رکھی تھیں۔ پاس ہی بہت سے کنکر پڑے تھے اس نے ایک ایک اٹھاکر مٹکے میں ڈالنا شروع کیا۔ ڈالتے ڈالتے صبح سے شام ہوگئی۔ پیاسا تو تھا ہی نڈھال ہوگیا۔ مٹکے کے اندر نظر ڈالی تو کیا دیکھتا ہے کہ کنکر ہی کنکر ہیں۔ سارا پانی کنکروں نے پی لیا ہے۔ بے اختیار اسکے منہ سے نکلا ہے تیرے لقمان کی ایسی کی تیسی۔۔۔ پھر بے ہوش ہوکر زمین پر گر گیا اور مر گیا۔ اگر وہ کوا کہیں سے ایک نلکی لے آتا تو مٹکے کے منہ پر بیٹھا بیٹھا پانی چوس لیتا۔ اپنے دل کی مراد پاتا ہرگز جان سے نہ جاتا۔  ایسی ساری کہانیاں ہمارے تعلیمی نصاب کا حصہ ہیں۔ شاید ہمارا تعلیمی نصاب ہمیں کمال تک پہنچائیں۔۔ لول

سیکس اور اوداس پاکستانی نسلیں

 سِگمنڈ فرائیڈ نے کہا تھا ’’وہ جذبات جِن کا اِظہار نہ ہو پائے، کبھی بھی مرتے نہیں ہیں، وہ زِندہ دفن ہو جاتے ہیں، اور بعد ازاں بدصورت طریقوں سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔‘‘  آپ غالِب، میر، داغ، جِگر، جُون، پروین، وصی، اور دیگر اردو کے شُعرا کی کتابیں پڑھ لیں، اِنکا کثیر حِصہ وصل و ہجر و فراق، اَن کہے جذبات، حسرتوں، اور پچھتاووں کے موضوعات پر مُشتمل ہو گا۔ آپ گُوگل کے اعداد و شُمار کا تجزیہ بھی کر لیں، پاکستان کا شُمار اُن مُمالک میں ہوگا، جہاں فحش ویبسائیٹس دیکھنے کا رِواج سب سے زیادہ ہے۔ آپ خیبر سے کراچی تک کا سفر بھی کر لیں، عورت چاہے شٹل کاک بُرقعے میں ہی ملبُوس کیوں نہ گُزر رہی ہو، آس پاس موجود مَرد حضرات اُسے تب تک گُھورتے رہیں گے جب تک وہ گلی کا موڑ مُڑ کر نظروں سے اوجھل نہ ہو جائے۔ آپ کِسی سے بھی گُفتگو کر کے دیکھ لیں، ہر دو فقروں کے بعد ماں بہن کے جِنسی اعضا پر مُشتمل گالیاں شامِل ہوں گی۔ آپ مذہبی مُبلغین و عُلما کے بیانات بھی سُن لیں، اِن میں بہتر حُوروں کے نشیب و فراز کے سائز پر سیر حاصِل روشنی ڈالی گئی ہوگی۔ آپ پاکستان کے ڈرامے، ناول، ڈائجسٹ، فلمیں بھی دیکھ لیں، یہ ع...

زلزلے اور من گھڑت کہانیاں

 کچھ 30 سال پہلے جنوبی وزیرستان کے اکثر اور ملحقہ علاقہ مکین میں زلزلے کے یکے بعد دیگرے شدید بلکہ قیامت خیز جھٹکے محسوس کئےگئے۔رات دو بجے تھے اندھیرہ تھا ہر طرف خوف کا سماں تھا ، میں خودآنکھوں دیکھا حال تھا کبھی ایک (خاماٹہ پہاڑ ) سے دھاڑ ( خوف) کی آواز، تو کبھی پیرغر سے زلزلے کی آواز ، پھر زلزلے کے شدید جھٹکے،  یوں ہی زمیں ہل رہی تھی خود کو زمین پر کھڑے نہیں رکھ سکتے، بہر حال ایک قیامت تھی، قیامت گزر گئی، ہر کوئی پہلے سے سچا مسلمان بن گیا۔ذکر ازکار میں رات گزاری اور یوں ہی صبح کی آذان ہوگئی۔ کوئی گھراندر جانے کی ھمت نہیں کرسکتا تھا۔ صبح ہوتے ہی پڑوسی حضرات جس میں خواتین بھی شامل تھیں عجیب و غریب خوف وحراس کی داستانیں سناتے رہے۔ تاہم دن یوں ہی خوف میں گزار کر شام ہوگئی۔ کہانیاں بڑی عجیب سی تھیں جن کی تفصیل ملاحظہ ہورہی ہے۔  ایک پڑوسی کے منہ سے سفید جھوٹ سنا کہ شہزادہ وزیرستان( جو اس وقت ایک بزرگ مانا جاتاتھا بلکہ آج بھی اکثر لوگ مانتے ہیں) نے خبر دی ہے کہ رات 2 بجے یعنی زلزلے کی 24 گھنٹے بعد دوبارہ زلزلہ ہوگا، اس اثناء میں ایک اور منگھڑت خبر آئی کی ملحقہ علاقے شوال میں دو...

بچے سمجھدار ہوتے ہیں یا بڑے

 عموماً سمجھا یہ جاتا ہے کہ بچے بڑوں کے مقابلے میں کم سمجھدار ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ دن پہلے کے تجربے کے بعد میں اس تاثر کو رد کرنے لگا ہوں۔  ہوا یوں کہ میں اپنی چھوٹی بچی کو پڑھا رہا تھا۔ جب میں نے ایک باب پڑھانا شروع کیا تو اس نے کہا کہ یہ باب نہیں پڑھنا۔ میں نے پوچھا کیوں؟ کہنے لگی یہ ابھی اس ٹرم کے کورس میں شامل نہیں۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں پھر بھی پڑھ لیتے ہیں۔ کہنے لگی جب اس میں سے کوئی سوال نہیں پوچھا جانا تو پھر اس پر وقت ضائع کرنے سے بہتر نہیں کہ ہم اس سبق کی تیاری کرلیں جو امتحان میں پوچھا جانا ہے۔  اب یہ بظاہر ایک معمولی سی بات تھی لیکن اس بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا۔ کیا ہم بڑے اپنے امتحان کیلئے مناسب تیاری کر رہے ہیں یا وہ سبق یاد کر رہے ہیں جن کا امتحان میں سوال ہی نہیں پوچھا جانا۔ روایات کے مطابق تین موٹے موٹے سوال پوچھے جانے ہیں؛ تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کونسا ہے؟ تیرا نبی کون ہے؟  اسکے علاؤہ حقوق الله کی بات ہوگی اور انسانوں کے حوالے جو سوالات ہوں گے وہ کچھ یوں ہوں گے کہ فلاں کا حق کیوں کھایا، فلاں کی مدد کیوں نہیں کی جب ہم نے تمہارے پاس بھیجا، فل...

میں ہوں ایڈہاک لیکچرر۔ مجھے مار ڈالئے

 میں ایڈہاک لیکچرر ہوں اور ہوں بڑا نالائق، نالائقی کی ایک حد ہوتی ہے اور وہ حد میں نے عبور کی ہے۔ پبلک سروس کمیشن نے مجھے کئی مرتبہ (دھکے دےکر) ٹسٹ کی بنیاد پر strongly reject کیا ہے انٹرویو تو دور کی بات ہے، (انٹرویو خو دا سار وخوری) لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان اور عدلیہ نے مجھے بغیر Demo اور ٹسٹ و انٹرویو لئے سفارشی بھرتی کرکے مستقل بھی کیا ، اور مجھے بطور لیکچرر سترہ گریڈ تعینات کیا گیا۔ محلے کے لوگ و احباب مجھے پروفیسر کے نام سے پکارتے ہیں، مستقبل میں ریکروٹمنٹ کمیٹی کا ممبر بھی رہوں گا۔ واوووووو!  دوسری طرف ہائیر ایجوکیشن کی نا اہلی کا بڑا مشکور ہوں کہ کیسے مجھ جیسے نالائق ترین کو تعلیمی ڈگریوں سے نوازہ ہے؟ کیوں اور کیسےمجھے ڈگریاں دی گئی ہیں؟ یہ تو میں خوب جانتا ہوں، گارنٹی سے کہتا ہوں کہ آج تک ایک کتاب مکمل نہیں پڑھی ہے، شاید مجھے ڈگریاں بطور زکواہ ملی ہیں، یا پیسے دو ڈگری لو والی بات ہے۔ میں بڑا مشکور ہوں شکریہ پاکستان شکریہ عدلیہ!  لیکن لیکن لیکن! مجھے بچوں کی مستقبل بڑی عزیز ہے، اور مجھے معمارقوم بھی تعینات کیا گیا ہے۔  ایک اور مزے کی بات یہ ہے ک...